EN हिंदी
اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے | شیح شیری
use ye haq hai ki wo mujhse iKHtilaf kare

غزل

اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے

اعجاز رحمانی

;

اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے
مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے

اسے تو اپنی بھی صورت نظر نہیں آتی
وہ اپنے شیشۂ دل کی تو گرد صاف کرے

کیا جو اس نے مرے ساتھ نا مناسب تھا
معاف کر دیا میں نے خدا معاف کرے

وہ شخص جو کسی مسجد میں جا نہیں سکتا
تو اپنے گھر میں ہی کچھ روز اعتکاف کرے

وہ آدمی تو نہیں ہے سیاہ پتھر ہے
جو چاہتا ہے کہ دنیا مرا طواف کرے

وہ کوہ کن ہے نہ ہے اس کے ہاتھ میں تیشہ
مگر زبان سے جب چاہے وہ شگاف کرے

میں اس کے سارے نقائص اسے بتا دوں گا
انا کا اپنے بدن سے جدا غلاف کرے

جسے بھی دیکھیے پتھر اٹھائے پھرتا ہے
کوئی تو ہو مری وحشت کا اعتراف کرے

میں اس کی بات کا کیسے یقیں کروں اعجازؔ
جو شخص اپنے اصولوں سے انحراف کرے