EN हिंदी
اسے یادوں میں جب لانا مسلسل کر دیا میں نے | شیح شیری
use yaadon mein jab lana musalsal kar diya maine

غزل

اسے یادوں میں جب لانا مسلسل کر دیا میں نے

انو بھو گپتا

;

اسے یادوں میں جب لانا مسلسل کر دیا میں نے
اسے وو ہچکیاں آئیں کہ پاگل کر دیا میں نے

کتابوں میں پڑھے جب ایک طرفہ پیار کے قصے
خود اپنا دل تمناؤں کا مقتل کر دیا میں نے

کئی غزلیں پڑی تھیں نامکمل ایک عرصے سے
اسے جب آج دیکھا تو مکمل کر دیا میں نے

جو سایہ ہم قدم بن کر سفر میں ساتھ رہتا تھا
ہمیشہ کے لئے خود سے الگ کل کر دیا میں نے

سنا تو خیر سے آیا ہوں اس کو داستاں اپنی
مگر ان پھول سی آنکھوں کو بوجھل کر دیا میں نے

تمہارے بال میں نے کھول کر موسم بدل ڈالا
فضا میں دور تک بادل ہی بادل کر دیا میں نے

دھواں یادوں کا ہی کافی تھا دل کمزور کرنے کو
جلا کر راکھ کل بیڑی کا بنڈل کر دیا میں نے