اسے پانے کی کرتے ہو دعا تو
مگر اس سے بھی کل جی بھر گیا تو
یقیناً آج ہم اک ساتھ ہوتے
اگر کرتے ذرا سا حوصلہ تو
چلے ہو رہنما کر علم کو تم
تمہیں اس علم نے بھٹکا دیا تو
سمجھ سکتے ہو کیا انجام ہوگا
تمہارے وار سے وہ بچ گیا تو
بہت مصروف تھا محفل میں مانا
نہیں کچھ بولتا پر دیکھتا تو
کسی کو چاہتی ہے پوچھ لوں کیا
جواب اس کا مگر ہاں میں ملا تو
میں اچھا ہوں تبھی اپنا رہی ہو
کوئی مجھ سے بھی اچھا مل گیا تو
بہت نزدیک مت آیا کرو تم
کہیں کچھ ہو گئی ہم سے خطا تو
بہت سے کام کل کرنے ہیں مجھ کو
مگر اے زندگی کل نہ ہوا تو
غلامی میں جکڑ لے گا کوئی پھر
وطن ایسے ہی گر لٹتا رہا تو
اسے پھر کون مارے گا بتاؤ
غم ہجراں نے بھی ٹھکرا دیا تو
غزل
اسے پانے کی کرتے ہو دعا تو
سراج فیصل خان