اسے ہم بھی بھول بیٹھے نہ کر اس کا ذکر تو بھی
کوئی چاک اگر ہو ظاہر تو کریں اسے رفو بھی
چلو چل کے پوچھ آئیں کہ خزاں کی اس گلی میں
کبھی آ چکا ہو شاید کوئی سیل رنگ و بو بھی
اڑی تشنگی کے کوچے میں وہ گرد اک طرف سے
ہم اٹھا سکے نہ طاقوں سے گرے ہوئے سبو بھی
ابھی کیسے بھول جاؤں میں یہ واقعہ سفر میں
ابھی گرد رفتگاں بھی ہے جگہ جگہ لہو بھی
اس ارم ارم زمیں پر کہ بہار امنڈ رہی ہے
کوئی پھول اگر کھلا دے مری بے نمو بھی
تری انجمن کی رونق میں نہ فرق آئے گا کچھ
ہمیں چپ بٹھانے والے کبھی ہم سے گفتگو بھی
مرے خال و خد کو صورت کا فروغ دینے والو
کسی نقش میں دکھاؤ مرا زخم شعلہ رو بھی
غزل
اسے ہم بھی بھول بیٹھے نہ کر اس کا ذکر تو بھی
محشر بدایونی