EN हिंदी
اسے بھلائے ہوئے مجھ کو اک زمانہ ہوا | شیح شیری
use bhulae hue mujhko ek zamana hua

غزل

اسے بھلائے ہوئے مجھ کو اک زمانہ ہوا

مہتاب حیدر نقوی

;

اسے بھلائے ہوئے مجھ کو اک زمانہ ہوا
کہ اب تمام مرے درد کا فسانہ ہوا

ہوا بدن مرا دشمن عدو ہوئی مری روح
میں کس کے دام میں آیا ہوس نشانہ ہوا

یہی چراغ جو روشن ہے بجھ بھی سکتا تھا
بھلا ہوا کہ ہواؤں کا سامنا نہ ہوا

کہ جس کی صبح مہکتی تھی شام روشن تھی
سنا ہے وہ در دولت غریب خانہ ہوا

وہ لوگ خوش ہیں کہ وابستۂ زمانہ ہیں
میں مطمئن ہوں کہ در اس کا مجھ پہ وا نہ ہوا