EN हिंदी
اس زلف کی توصیف بتائی نہیں جاتی | شیح شیری
us zulf ki tausif batai nahin jati

غزل

اس زلف کی توصیف بتائی نہیں جاتی

جگر جالندھری

;

اس زلف کی توصیف بتائی نہیں جاتی
اک لمبی کہانی ہے سنائی نہیں جاتی

دل ہے کہ مرا جاتا ہے دیدار کی خاطر
ہم ہیں کہ ادھر آنکھ اٹھائی نہیں جاتی

اشکوں سے کبھی سوز جگر کم نہیں ہوتا
یہ آگ تو پانی سے بجھائی نہیں جاتی

دل یہ تو ترا داغ‌ محبت نہ چھپے گا
آئینے سے تصویر چھپائی نہیں جاتی

یا رب کہاں لے جاؤں میں حسرت زدہ دل کو
یہ لاش تو اب مجھ سے اٹھائی نہیں جاتی

آہوں سے کمی غم میں نہ ہوگی دل ناداں
پھونکوں سے کبھی آگ بجھائی نہیں جاتی

کیوں اشک ندامت نہ بہائیں جگرؔ آنکھیں
جو دل میں لگی ہے وہ بجھائی نہیں جاتی