اس زلف کے سودے کا خلل جائے تو اچھا
اس پیچ سے دل اپنا نکل جائے تو اچھا
شطرنج میں جی ان کا بہل جائے تو اچھا
اے مہرؔ یہ چال اچھی ہے چل جائے تو اچھا
اس زیست سے اب موت بدل جائے تو اچھا
بے چین ہے دل جان نکل جائے تو اچھا
محروم ہوں اس دور میں ساقی فقط اک میں
اے کاش خم بادہ ابل جائے تو اچھا
خم ٹھونک کے کرتا ہے یہ اب بیچ بلا کے
اس طرح کے طرار کا بل جائے تو اچھا
اس عشق میں پھر جان کے پڑ جائیں گے لالے
اب بھی دل بیتاب سنبھل جائے تو اچھا
چھو جائے جو بندے کی سوا جسم سے تیرے
اللہ کرے ہاتھ وہ گل جائے تو اچھا
کیا عشق سا ہے عشق محبت سی محبت
بدلوں گا میں اس دل کو بدل جائے تو اچھا
ممکن ہی نہیں ہے کہ بچے جان سلامت
اس کوچہ میں مشتاق اجل جائے تو اچھا
بوسوں میں مزا قند مکرر کا ہو ساقی
اک دور دوبارہ کا بھی ڈھل جائے تو اچھا
اب ذوق کی مانند غم عشق جگر میں
کانٹا سا کھٹکتا ہے نکل جائے تو اچھا
رنگینی فکر اور میری روشنی طمع
کچھ لعل و گہر اور اگل جائے تو اچھا
احباب بنارس کے لیے مہرؔ کا تحفہ
ایک اور بھی ساتھ اس کے غزل جائے تو اچھا
غزل
اس زلف کے سودے کا خلل جائے تو اچھا
حاتم علی مہر