EN हिंदी
اس سے تسلیم بس یوں ہی سی ہے | شیح شیری
us se taslim bas yunhi si hai

غزل

اس سے تسلیم بس یوں ہی سی ہے

عرفان وحید

;

اس سے تسلیم بس یوں ہی سی ہے
برف احساس کی جمی سی ہے

چلئے احباب کو تو جان گئے
یہ مصیبت تو عارضی سی ہے

کچھ تو چارہ گری کرے کوئی
آج کچھ درد میں کمی سی ہے

آج چپکے سے کس کی یاد آئی
دل کے آنگن میں چاندنی سی ہے

کس نے ترک وفا کیا پہلے
یہ شکایت بھی باہمی سی ہے

حسرتو اب تو ہو چلو خاموش
نبض بیمار کی تھمی سی ہے

عمر گزری جسے بیاں کرتے
وہ کتھا اب بھی ان کہی سی ہے