EN हिंदी
اس سے میرا تو کوئی دور کا رشتہ بھی نہیں | شیح شیری
us se mera to koi dur ka rishta bhi nahin

غزل

اس سے میرا تو کوئی دور کا رشتہ بھی نہیں

ظفر انصاری ظفر

;

اس سے میرا تو کوئی دور کا رشتہ بھی نہیں
اور یہ بھی ہے کہ وہ شخص پرایا بھی نہیں

وہ مرے غم سے ہو انجان کچھ ایسا بھی نہیں
وہ مرا حال مگر پوچھنے آیا بھی نہیں

غیر کو قرب میسر ہے مگر اے ہمدم
میری خاطر تو ترا دور کا جلوہ بھی نہیں

عمر بھر ساتھ نبھانے کا کروں کیا وعدہ
زندگی اب تو مجھے خود پہ بھروسہ بھی نہیں

اس قدر مجھ کو رہا آبروئے غم کا خیال
رونا چاہا تو مگر پھوٹ کے رویا بھی نہیں

ایک تیری جو تمنا نہ رہی اے ہمدم
میرے دل میں تو کسی شے کی تمنا بھی نہیں

ایک وہ ہیں کہ انہیں آئی ہے آرام کی نیند
ایک میں ہوں کہ کبھی چین سے سویا بھی نہیں

باز آتے بھی نہیں ظلم و ستم سے اپنے
دیکھ پاتے ہو مگر میرا تڑپنا بھی نہیں

چھوڑے جاتی ہے مگر یہ بھی تجھے یاد رہے
زندگی تیرے سوا اب کوئی اپنا بھی نہیں

کس طرح پھیل گئی بوئے حنا ہر جانب
اس کے بارے میں ابھی میں نے تو سوچا بھی نہیں

مجھ کو حالات نے بے حس ہی بنا کر چھوڑا
میرے سینے میں یہ دل ہے کہ دھڑکتا بھی نہیں

بھول کے سارے ستم ہم تو چلے جاتے ظفرؔ
پر ہمیں اس نے کبھی دل سے بلایا بھی نہیں