اس نے جو درد کا انبار لگایا ہوا ہے
ہم نے بھی دل سر بازار لگایا ہوا ہے
ایک آفت کی طرح ہم نے اب اس سینے سے
تھا لگانا جسے سرکار لگایا ہوا ہے
پیار کی تازہ ہوا آئے کہاں سے ہم نے
خود کو اک صورت دیوار لگایا ہوا ہے
کیا کسی بت کی محبت میں گرفتار ہوئے
کیوں بھلا سینے سے زنار لگایا ہوا ہے
ایک لمحے کو بھی موجود نہیں ہے راحت
گھر میں کیا حلقۂ اغیار لگایا ہوا ہے
اپنے سے دور بھی رکھا ہے بہت تو نے ہمیں
ایک تسمہ سا بھی اے یار لگایا ہوا ہے
تاکہ تفریق دلوں میں نہ رہے ہرگز طورؔ
ہم نے اس پار کو اس پار لگایا ہوا ہے
غزل
اس نے جو درد کا انبار لگایا ہوا ہے
کرشن کمار طورؔ

