اس نے آتے ہی دیا بجھا دیا
حال پھر سارا مجھے سنا دیا
مختصر سے اس کے اک تبسم پر
جو کچھ بھی تھا پاس وہ لٹا دیا
بے صبری سے پڑھ گیا ایک ایک لفظ
اور پھر وہ خط وہیں جلا دیا
سر اٹھایا جس نے بستی کے لیے
اس کے آگے ہم نے سر جھکا دیا
سارا دن دریا کنارے ریت پر
نام لکھا میرا اور مٹا دیا
مسکرا کر بات ہی تو کی اس نے
لوگوں نے اس پر طوفان اٹھا دیا
اس طرف اس نے کبھی دیکھا نہ تھا
اور جب دیکھا تو بت بنا دیا
ہم کھرے سکے لیے بیٹھے رہے
اس نے نقلی نوٹ تک چلا دیا

غزل
اس نے آتے ہی دیا بجھا دیا
حبیب کیفی