اس کو یہ ضد ہے کہ رہ جائے بدن سر نہ رہے
گھومتی جائے زمیں اور کوئی محور نہ رہے
اس نے ہمت جو بڑھائی بھی تو رکھا یہ لحاظ
کوئی بزدل نہ بنے کوئی دلاور نہ رہے
اس نے اس طرح اتاری مرے غم کی تصویر
رنگ محفوظ تو رہ جائیں پہ منظر نہ رہے
اس نے کس ناز سے بخشی ہے مجھے جائے پناہ
یوں کہ دیوار سلامت ہو مگر گھر نہ رہے
اب یہ سازش ہے کہ لکھے نہ کوئی قصۂ دل
لفظ رہ جائے مگر کوئی سخن ور نہ رہے
اب کے آندھی بھی چلی جب تو سلیقے سے چلی
یوں کہ رہ جائے شجر شاخ ثمر ور نہ رہے
غزل
اس کو یہ ضد ہے کہ رہ جائے بدن سر نہ رہے
مظہر امام