اس کو تکتے بھی نہیں تھے پہلے
ہم بھی خوددار تھے کتنے پہلے
اس کو دیکھا تو یہ محسوس ہوا
ہم بہت دور تھے خود سے پہلے
دل نظر آتے ہیں اب آنکھوں میں
کتنے گہرے تھے یہ چشمے پہلے
کھوئے رہتے ہیں اب اس کی دھن میں
جس کو تکتے نہ تھے پہلے پہلے
ہم کو پہچان لیا کرتے تھے
یہ ترے شہر کے رستے پہلے
اب اجالوں میں بھٹک جاتے ہیں
وہ سمجھاتے تھے اندھیرے پہلے
اب نہ الفاظ نہ احساس نہ یاد
اتنے مفلس نہ ہوئے تھے پہلے
رنگ کے جال میں آتے نہ کبھی
پاس سے دیکھ جو لیتے پہلے
گرم ہنگامۂ کاغذ ہے یہاں
بے مہک پھول کہاں تھے پہلے
غزل
اس کو تکتے بھی نہیں تھے پہلے
محمود شام