اس کو نہ خیال آئے تو ہم منہ سے کہیں کیا
وہ بھی تو ملے ہم سے ہمیں اس سے ملیں کیا
لشکر کو بچائیں گی یہ دو چار صفیں کیا
اور ان میں بھی ہر شخص یہ کہتا ہے ہمیں کیا
یہ تو سبھی کہتے ہیں کوئی فکر نہ کرنا
یہ کوئی بتاتا نہیں ہم کو کہ کریں کیا
گھر سے تو چلے آتے ہیں بازار کی جانب
بازار میں یہ سوچتے پھرتے ہیں کہ لیں کیا
آنکھوں کو کئے بند پڑے رہتے ہیں ہم لوگ
اس پر بھی تو خوابوں سے ہیں محروم کریں کیا
دو چار نہیں سینکڑوں شعر اس پہ کہے ہیں
اس پر بھی وہ سمجھے نہ تو قدموں پہ جھکیں کیا
جسمانی تعلق پہ یہ شرمندگی کیسی
آپس میں بدن کچھ بھی کریں اس سے ہمیں کیا
خوابوں سے بھی ملتے نہیں حالات کے ڈر سے
ماتھے سے بڑی ہو گئیں یارو شکنیں کیا
غزل
اس کو نہ خیال آئے تو ہم منہ سے کہیں کیا
شجاع خاور