EN हिंदी
اس کو میرا ملال ہے اب بھی | شیح شیری
usko mera malal hai ab bhi

غزل

اس کو میرا ملال ہے اب بھی

سون روپا وشال

;

اس کو میرا ملال ہے اب بھی
چلیے کچھ تو خیال ہے اب بھی

روز یادوں کی تہہ بناتا ہے
اس کا جینا محال ہے اب بھی

تم نے اتر بدل دئے ہر بار
میرا وہ ہی سوال ہے اب بھی

جس نے دشمن سمجھ لیا ہے ہمیں
اس سے ملنا وصال ہے اب بھی

دفن ہو کر بھی سانس باقی ہے
کوئی رشتہ بحال ہے اب بھی