اس کو دیکھا تو دکھا کچھ بھی نہیں
لٹ گیا سب کچھ بچا کچھ بھی نہیں
سوچ کر نعرہ لگایا عشق نے
وہ ملا ہے تو گیا کچھ بھی نہیں
عشق زندہ یار زندہ باد ہے
اس سے آگے کا پتا کچھ بھی نہیں
سچ بتاؤں درد بھی سوغات ہے
ورنہ آہوں کو ملا کچھ بھی نہیں
ہم کو پاگل کہہ رہا ہے یہ جہاں
اس کو لگتا ہے ہوا کچھ بھی نہیں
اپنی محفل میں اکیلا تھا وہی
ساری محفل میں دکھا کچھ بھی نہیں
عشق کی اتنی حقیقت ہے ضیاؔ
اس کی مرضی کے سوا کچھ بھی نہیں

غزل
اس کو دیکھا تو دکھا کچھ بھی نہیں
سید ضیا علوی