EN हिंदी
اس کی اک دنیا ہوں میں اور میری اک دنیا ہے وہ | شیح شیری
uski ek duniya hun main aur meri ek duniya hai wo

غزل

اس کی اک دنیا ہوں میں اور میری اک دنیا ہے وہ

ابراہیم اشکؔ

;

اس کی اک دنیا ہوں میں اور میری اک دنیا ہے وہ
دشت میں تنہا ہوں میں اور شہر میں تنہا ہے وہ

میں بھی کیسا آئنہ ہوں آئنہ در آئنہ
دور تک چہرہ بہ چہرہ بس نظر آتا ہے وہ

اس کی خوش بو سے مہک کر پھول بن جاتا ہے دل
موسم گل کی طرح آتا ہے وہ جاتا ہے وہ

زندگی اپنی مسلسل چاہتوں کا اک سفر
اس سفر میں بارہا مل کر بچھڑ جاتا ہے وہ

خواب کیا ہے اک کھنڈر ہے یہ کھنڈر کتنا حسیں
اس کھنڈر میں سیر کرنے کے لیے آتا ہے وہ

میں سراپا آرزو ہوں آرزوئے نا تمام
مجھ کو ہر منزل سے آگے کی خبر دیتا ہے وہ

حسن کیا ہے اک غزل ہے اشکؔ اک تازہ غزل
جام ہے مینا ہے وہ ساغر ہے وو صہبا ہے وہ