اس کی چشم کرم تھی حیات آفریں خشک پتوں پہ جیسے نکھار آ گیا
آرزو کے شگوفے مہکنے لگے دل کی بے چینیوں کو قرار آ گیا
دشت غربت میں بھی زانوئے دوست پر میری تنہائی کو یہ تأثر ہوا
بھولا بھٹکا ہوا اک مسافر کوئی یک بیک جیسے اپنے دیار آ گیا
عمر بھر فکر دنیا میں غلطاں رہے مارے مارے پھرے مفت رسوا ہوئے
زندگی دفعتاً زندگی بن گئی چار آنکھیں ہوئیں دل میں پیار آ گیا
بانکپن ان کا مشہور تھا میری دیوانگی پر ہمیشہ ہنسے
لیکن آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے سامنے جب ہمارا مزار آ گیا
جانتا ہوں کدورت بری چیز ہے آپ سے دشمنی کی توقع نہ تھی
دور ہونا بہت اس کا دشوار ہے دل کے آئینے میں جب غبار آ گیا
زخم بھرنے لگے درد تھم سا گیا اک سہارا ملا دل کو ڈھارس بندھی
اس کے قول و قسم میں بھی اک بات تھی جو بھی اس نے کہا اعتبار آ گیا

غزل
اس کی چشم کرم تھی حیات آفریں خشک پتوں پہ جیسے نکھار آ گیا
جامی ردولوی