اس کی چاہ میں نام نہیں آنے والا
اب میرا انجام نہیں آنے والا
حسن سے کام پڑا ہے آخری سانسوں میں
اور وہ کسی کے کام نہیں آنے والا
میری صدا پر وہ نزدیک تو آئے گا
لیکن زیر دام نہیں آنے والا
ایک جھلک سے پیاس کا روگ بڑھے گا اور
اس سے مجھے آرام نہیں آنے والا
عشق کے نام پہ تیرا رنگ نہ بدلے یار
تجھ پر کچھ الزام نہیں آنے والا
کام کو بیٹھے ہیں اور سر پر آئی شام
لگتا ہے اب کام نہیں آنے والا
کیوں بے کار اس شخص کا رستہ دیکھتے ہو
وہ تو شمارؔ اس شام نہیں آنے والا
غزل
اس کی چاہ میں نام نہیں آنے والا
اختر شمار