EN हिंदी
اس کی آنکھوں میں تمنائے سحر رکھ دینا | شیح شیری
uski aankhon mein tamanna-e-sahar rakh dena

غزل

اس کی آنکھوں میں تمنائے سحر رکھ دینا

مظہر امام

;

اس کی آنکھوں میں تمنائے سحر رکھ دینا
سینۂ شب میں کسی بات کا ڈر رکھ دینا

آج گزرے گا اسی سمت سے وہ مہر بدن
دل کے رستے میں ذرا چند شجر رکھ دینا

یہ نہ کہنا کہ اندھیرا ہے بہت راہوں میں
اس سے ملنا تو ہتھیلی پہ قمر رکھ دینا

اس کو اشعار سنانا تو کرامات کے ساتھ
اپنے ٹوٹے ہوئے لفظوں میں اثر رکھ دینا

وارداتیں تو کئی شہر میں گزری ہوں گی
آج اخبار میں میری بھی خبر رکھ دینا

جس ورق پر ہے حدیث لب و رخسار رقم
اس ورق پر کوئی برگ گل تر رکھ دینا

ایک مہتاب درخشاں ہے سر بام خیال
میری آنکھوں میں بھی نیرنگ نظر رکھ دینا

لالۂ نم سے تراشے وہ کوئی پیکر سنگ
دست صناع میں اک یہ بھی ہنر رکھ دینا