EN हिंदी
اس کی آنکھوں میں اک سوال سا تھا | شیح شیری
uski aankhon mein ek sawal sa tha

غزل

اس کی آنکھوں میں اک سوال سا تھا

ماہ طلعت زاہدی

;

اس کی آنکھوں میں اک سوال سا تھا
میرے دل میں کوئی ملال سا تھا

دھل گیا آنسوؤں میں سارا وجود
عشق میں یہ عجب کمال سا تھا

جسم کی ڈال پر جھکا تھا خواب
روح سرشار دل نہال سا تھا

گفتگو کر رہی تھی خاموشی
ہجر کی راہ میں وصال سا تھا

خواہشیں ہر گھڑی عروج پہ تھیں
وقت کو ہر گھڑی زوال سا تھا

میں بھی تھی آشنا روایت سے
اس کو بھی ضبط میں کمال سا تھا

خواب در خواب تھیں ملاقاتیں
درد دل وجہ اندمال سا تھا

آئنہ بن گیا ہے میرے لئے
ایک چہرہ کہ بے مثال سا تھا