EN हिंदी
اس کے قرب کے سارے ہی آثار لگے | شیح شیری
uske qurb ke sare hi aasar lage

غزل

اس کے قرب کے سارے ہی آثار لگے

زیب غوری

;

اس کے قرب کے سارے ہی آثار لگے
ہوا میں لہراتے گیسوئے یار لگے

دل بھی کیا نیرنگ سراب آرزو ہے
رونق دیکھو تو کوئی بازار لگے

میں گھبرا کر تجھ کو پکاروں تو یہ فلک
آنگن بیچ بہت اونچی دیوار لگے

اک بے معنی محویت سی ہے شب و روز
سوچو تو جو کچھ ہے سب بے کار لگے

میری انا افتادگی میں بھی کیا ہے زیبؔ
کوئی ہاتھ بڑھائے تو تلوار لگے