EN हिंदी
اس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں | شیح شیری
uske pahlu se lag ke chalte hain

غزل

اس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں

جون ایلیا

;

اس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں
ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں

بند ہے مے کدوں کے دروازے
ہم تو بس یوں ہی چل نکلتے ہیں

میں اسی طرح تو بہلتا ہوں
اور سب جس طرح بہلتے ہیں

وہ ہے جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں

ہے اسے دور کا سفر در پیش
ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں

شام فرقت کی لہلہا اٹھی
وہ ہوا ہے کہ زخم بھرتے ہیں

ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں

تم بنو رنگ تم بنو خوشبو
ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں