اس کے لہجے کا وہ اتار چڑھاؤ
رات کی نرم رو ندی کا بہاؤ
اس کی آنکھوں کے وصف کیا لکھوں
جیسے خوابوں کا بیکراں ٹھہراؤ
ان نگاہوں کی گفتگو میں ہے
نیند میں گم ہواؤں کا الجھاؤ
اس بدن کی نزاکتیں مت پوچھ
شیشۂ گل میں چاند کا لہراؤ
نیند کی وادیوں میں پچھلے پہر
ایک لے ایک نغمہ ایک الاؤ
ایسی تنہائی کا مداوا کیا
سات دریاؤں میں اکیلی ناؤ
ان لبوں کی وہ بوسہ بوسہ اٹھان
اور پلکوں کا نشہ نشہ جھکاؤ
اس گلی اس دیار کی خوش بو
اے سبک سیر نرم گام ہواؤ
نوجوانی میں موت کی خواہش
تم ہی سمجھا سکو تو کچھ سمجھاؤ
جانے وہ غنچہ کس چمن کا ہے
جس میں گم ہے بہار کا پھیلاؤ
رات کہتی ہے مجھ کو پیار سے دیکھ
مجھ میں ہے چشم یار کا گہراؤ
شعلۂ جاں ہے بجھنے کو جاویدؔ
اور دل میں دہک رہا ہے الاؤ
غزل
اس کے لہجے کا وہ اتار چڑھاؤ
احمد جاوید