اس کے دھیان کی دل میں پیاس جگا لی جائے
ایک بھی شام نہ پھر اس کے نام سے خالی جائے
آنکھوں میں کاجل کی پرت جما لی جائے
سکھیوں سے یوں پریت کی جوت چھپا لی جائے
ریت ہے سورج ہے وسعت ہے تنہائی
لیکن ناں اس دل کی خام خیالی جائے
آنکھوں میں بھر کر اس دشت کی حیرانی
وحشت کی عمدہ تصویر بنا لی جائے
آپ نے پہلے بھی تو مجھ کو دیکھا ہوگا!
آپ کے منہ سے آپ کی بات چرا لی جائے
سوچوں میں گرداب سے پڑنے لگ جائیں
آنکھوں سے پھر آٹھ پہر نہ لالی جائے
دل آزاری کی مٹی سے ایستادہ گھر
ان بے فیض دروں تک کون سوالی جائے
غزل
اس کے دھیان کی دل میں پیاس جگا لی جائے
عنبرین صلاح الدین