EN हिंदी
اس کے بدن کا لمس ابھی انگلیوں میں ہے | شیح شیری
uske badan ka lams abhi ungliyon mein hai

غزل

اس کے بدن کا لمس ابھی انگلیوں میں ہے

طارق جامی

;

اس کے بدن کا لمس ابھی انگلیوں میں ہے
خوشبو وہ چاندنی کی مرے ذائقوں میں ہے

میں سوچ کے بھنور میں تھا جس شخص کے لیے
وہ خود بھی کچھ دنوں سے بڑی الجھنوں میں ہے

اس کا وجود خامشی کا اشتہار ہے
لگتا ہے ایک عمر سے وہ مقبروں میں ہے

میں آسماں پہ نقش نہیں ہوں مگر سنو
اب بھی مری شبیہ کئی سورجوں میں ہے

میری طرح لبادہ خموشی کا اوڑھ لے
اپنا کیا دھرا ہے جو اب جھولیوں میں ہے

میں کورے کاغذوں کی قطاریں اداس اداس
گزری رتوں کے دکھ کی تھکن بادلوں میں ہے

ہر چند کائنات رہی بے کراں مگر
انسان ابتدا ہی سے کچھ دائروں میں ہے