اس کے آنے کی خبر چپکے سے لاتی ہے ہوا
رات میں صبح کی مانند جگاتی ہے ہوا
نغمگی ساز میں سانسوں کے اتر جاتی ہے
دل کے صحراؤں میں جب جھومتی گاتی ہے ہوا
ابر کچھ دیر برس کے جو چلا جاتا ہے
دیر تک پیڑ کی شاخوں کو رلاتی ہے ہوا
جب سے اک پھول سے چہرے نے نظر پھیری ہے
ایسا لگتا ہے کہ اس شہر سے جاتی ہے ہوا
ریت پر یوں ہیں بگولوں کی قطاریں میناؔ
آج بھی نقش قدم اس کے مٹاتی ہے ہوا
غزل
اس کے آنے کی خبر چپکے سے لاتی ہے ہوا
مینا نقوی