اس کا نیزہ تھا اور مرا سر تھا
اور اک خوش گوار منظر تھا
کتنی آنکھوں سے ہو کے گزرا وہ
اک تماشہ جو صرف پل بھر تھا
دل کے رشتوں کی بات کرتے ہو
ایک شیشہ تھا ایک پتھر تھا
انگلیوں کے نشان بول پڑے
کون قاتل تھا کس کا خنجر تھا
ہم اصولوں کی بات کرتے رہے
اور وہ تھا کہ اپنی ضد پر تھا

غزل
اس کا نیزہ تھا اور مرا سر تھا
صالح ندیم