اس کا لہجہ اکھڑتا جاتا ہے
پھر بچھڑنے کا وقت آتا ہے
اس کا انداز گفتگو اکثر
میرے لہجے میں جگمگاتا ہے
اس کی سانسیں جب آگ دیتی ہیں
میرا چہرہ بھی تمتماتا ہے
پیاس جب ایڑیاں رگڑتی ہے
چشمۂ آب پھوٹ جاتا ہے
جب بھی آتا ہے پھول کاجل کے
میرے کاندھے پہ ٹانک جاتا ہے
میں چکوروں کا ہم نوا ہوں مجھے
تو شب ہجر سے ڈراتا ہے
دیر تک میں بھی میں نہیں رہتا
جب وہ میرے قریب آتا ہے
غزل
اس کا لہجہ اکھڑتا جاتا ہے
خواجہ ساجد