EN हिंदी
اس کا چہرہ بھی سناتا ہے کہانی اس کی | شیح شیری
us ka chehra bhi sunata hai kahani uski

غزل

اس کا چہرہ بھی سناتا ہے کہانی اس کی

ریحانہ قمر

;

اس کا چہرہ بھی سناتا ہے کہانی اس کی
چاہتی ہوں کہ سنوں اس سے زبانی اس کی

وہ ستم گر ہے تو اب اس سے شکایت کیسی
اور ستم کرنا بھی عادت ہے پرانی اس کی

بیش قیمت ہے یہ موتی سے مری پلکوں پر
چند آنسو ہیں مرے پاس نشانی اس کی

اس جفا کار کو معلوم نہیں وہ کیا ہے
بے مروت کو ہے تصویر دکھانی اس کی

ایک وہ ہے نظر انداز کرے ہے مجھ کو
ایک میں ہوں کہ دل و جاں سے دوانی اس کی

تم کو الفت ہے قمرؔ اس سے تو اب کہہ دینا
سامنے سب کے سنا دینا کہانی اس کی