EN हिंदी
اس کا بدن بھی چاہئے اور دل بھی چاہئے | شیح شیری
us ka badan bhi chahiye aur dil bhi chahiye

غزل

اس کا بدن بھی چاہئے اور دل بھی چاہئے

عمران الحق چوہان

;

اس کا بدن بھی چاہئے اور دل بھی چاہئے
سرخیٔ لب بھی گال کا وہ تل بھی چاہئے

یہ کاروبار شوق ہے بے گار تو نہیں
اس کاروبار شوق کا حاصل بھی چاہئے

پانی اور آگ ایک جگہ چاہئیں ہمیں
جو شاخ گل بدست ہو قاتل بھی چاہئے

سب کو خبر تو ہو کہ وہ میرا ہے بس مرا
پہلو میں یار برسر محفل بھی چاہئے

پا کر چراغ دل کی ہوس اور بڑھ گئی
موصوف کو اب اک مہ کامل بھی چاہئے

یوں بے کنار آرزوؤں سے وصول کیا
خواہش کو ایک سمت بھی ساحل بھی چاہئے

ژولیدہ مو و چاک گریباں سب اہل دل
کوئی تو اس قبیلے میں عاقل بھی چاہئے

اپنی الگ شناخت بھی عمرانؔ ہو ضرور
وہ شخص اپنی زیست میں شامل بھی چاہئے