اس کا انجام بھلا ہو کہ برا ہو کچھ ہو
اب رعایا ہمیں رہنا نہیں شاہو کچھ ہو
زخم کا ایک سا یہ رنگ نہیں بھاتا ہے
اب تو یہ ٹھیک ہو یا اور ہرا ہو کچھ ہو
بند یادوں کے حوالات میں کب تک رہوں میں
یا میں ہو جاؤں بری یا تو سزا ہو کچھ ہو
جسم کہتا ہے کہ اب جاں سے گزر ہی جاؤ
دل یہ کہتا ہے کہ یہ رشتہ نباہو کچھ ہو
بے پرستش بشریت نہیں رہ سکتی ہے
بت ہو محبوب ہو دنیا ہو خدا ہو کچھ ہو
اب تو بستر سے یہ بیمار اٹھا چاہتا ہے
کچھ تو دو زہر ہلاہل ہو دوا ہو کچھ ہو
زیست ارشدؔ بڑی بے کیف ہوئی جاتی ہے
چاہیے درد پرانا ہو نیا ہو کچھ ہو
غزل
اس کا انجام بھلا ہو کہ برا ہو کچھ ہو
ارشد جمال حشمی