اس جبیں پر جو بل پڑے شاید
یہ کلیجہ نکل پڑے شاید
سانس رکنے لگی ہے سینے میں
تم کہو تو یہ چل پڑے شاید
ضبط سے لال ہو گئیں آنکھیں
ایک چشمہ ابل پڑے شاید
ایک بجھتا دیا محبت کا
تیرے ملنے سے جل پڑے شاید
بات اب جو تمہیں بتانی ہے
دل تمہارا اچھل پڑے شاید
آنسوؤں سے دھلی ہوئی آنکھیں
دیکھ کر وہ مچل پڑے شاید
بیٹھ کر بات کیوں نہیں کرتے
کوئی صورت نکل پڑے شاید
بے رخی سے نہیں کرو رخصت
راستے میں اجل پڑے شاید
غزل
اس جبیں پر جو بل پڑے شاید
الماس شبی