EN हिंदी
اس گلی تک سڑک رہی ہوگی | شیح شیری
us gali tak saDak rahi hogi

غزل

اس گلی تک سڑک رہی ہوگی

وجے شرما عرش

;

اس گلی تک سڑک رہی ہوگی
راہ اب بھی وہ تک رہی ہوگی

رشک بادل کو بھی ہوا ہوگا
دھوپ اس پر چمک رہی ہوگی

میں بھی کب میں ہوں ایسے موسم میں
وہ بھی خود میں بہک رہی ہوگی

دشت و صحرا کی اوٹ میں شاید
یہ زمیں زخم ڈھک رہی ہوگی

وہ بہت اجنبی سا پیش آیا
دل میں کوئی کسک رہی ہوگی

جو شجر صحن میں لگا ہے عرشؔ
اس پہ چڑیا چہک رہی ہوگی