اس دربار میں لازم تھا اپنے سر کو خم کرتے
ورنہ کم از کم اپنی آواز ہی مدھم کرتے
اس کی انا تسکین نہیں پاتی خالی لفظوں سے
شاید کچھ ہو جاتا اثر تم گریۂ پیہم کرتے
سیکھ لیا ہے آخر ہم نے عشق میں خوش خوش رہنا
درد کو اپنی دوا بناتے زخم کو مرہم کرتے
کام ہمارے حصے کے سب کر گیا تھا دوانہ
کون سا ایسا کام تھا باقی جس کو اب ہم کرتے
ہر جانے والے کو دیکھ کے رکھ لیا دل پر پتھر
کس کس کو روتے آخر کس کس کا ماتم کرتے
دل تو ہمارا جسے پتھر سے بھی سخت ہوا تھا
پتھر پانی ہو گیا سوکھی آنکھوں کو نم کرتے
بن جاتا تریاق اسی کا زہر اگر تم حیدرؔ
کوئی آیت پیار کی پڑھتے اور اس پر دم کرتے
غزل
اس دربار میں لازم تھا اپنے سر کو خم کرتے
حیدر قریشی