EN हिंदी
اس بت سے جو ملنے کی تدبیر نظر آئی | شیح شیری
us but se jo milne ki tadbir nazar aai

غزل

اس بت سے جو ملنے کی تدبیر نظر آئی

رئیس ناروی

;

اس بت سے جو ملنے کی تدبیر نظر آئی
بنتی ہوئی کچھ اپنی تقدیر نظر آئی

چھپ چھپ کے زمانے سے کیوں اشک روانی ہے
شاید کہ محبت میں تاثیر نظر آئی

جینے کا مزہ کیا ہے جب موت ہی روٹھی ہو
جس سمت قدم اٹھے زنجیر نظر آئی

جب عالم وحشت میں اپنے کو بھلا بیٹھا
انجام محبت کی تقصیر نظر آئی

پیمانہ و مینا کی صورت میں رئیسؔ آخر
ٹوٹی ہوئی توبہ کی تصویر نظر آئی