اس بت سے جو ملنے کی تدبیر نظر آئی
بنتی ہوئی کچھ اپنی تقدیر نظر آئی
چھپ چھپ کے زمانے سے کیوں اشک روانی ہے
شاید کہ محبت میں تاثیر نظر آئی
جینے کا مزہ کیا ہے جب موت ہی روٹھی ہو
جس سمت قدم اٹھے زنجیر نظر آئی
جب عالم وحشت میں اپنے کو بھلا بیٹھا
انجام محبت کی تقصیر نظر آئی
پیمانہ و مینا کی صورت میں رئیسؔ آخر
ٹوٹی ہوئی توبہ کی تصویر نظر آئی

غزل
اس بت سے جو ملنے کی تدبیر نظر آئی
رئیس ناروی