اس بت کو دل دکھا کے کلیجہ دکھا دیا
اسباب اپنی ذات کا سارا دکھا دیا
ہم نے تمہاری بات پہ دکھلا کے آئنہ
معشوق خوبرو تمہیں تم سا دکھا دیا
مشتاق دل ہوا جو وہ مے نوش بزم میں
میں نے اٹھا کے ہاتھ میں شیشہ دکھا دیا
ہم نے بھی ان کو ان کی طرح چھیڑ چھاڑ میں
رونا دکھا دیا کبھی ہنسنا دکھا دیا
او بحر حسن گریۂ بے حد کے لطف سے
سو بار مجھ کو اشک کا دریا دکھا دیا
ہم نے شگفتہؔ اس بت کافر کو پیار میں
اپنا سمجھ کے مال پرایا دکھا دیا
غزل
اس بت کو دل دکھا کے کلیجہ دکھا دیا
منشی خیراتی لال شگفتہ