اس بزم میں کیا کوئی سنے رائے ہماری
یہ بات یہ اوقات کہاں ہائے ہماری
ہم چاہتے کیا ہیں نہیں معلوم کسی کو
کس طرح طبیعت کوئی بہلائے ہماری
گزری ہے جوانی بڑی بے راہروی میں
اے کاش ضعیفی بھی گزر جائے ہماری
اس شہر میں رہنا ہے بیابان میں رہنا
صورت نہیں پہچانتے ہم سایے ہماری
یہ گھر یہ گلی ذہن میں کر لیجئے محفوظ
ممکن ہے کبھی آپ کو یاد آئے ہماری
غزل
اس بزم میں کیا کوئی سنے رائے ہماری
انور شعور