اس بحر میں ڈوب کیوں نہ جاؤں
کیوں موج نہ ایک اور اٹھاؤں
میں قطرۂ آب سے بنا موج
کیا بحر کے اور کام آؤں
گر کوئی صدف قبول کرے
میں بن کے گہر اسے دکھاؤں
شاید کوئی لہر لینے آئے
ساحل کے قریب گھر بناؤں
تو اپنے خیال میں مگن ہو
میں دور سے کوئی گیت گاؤں
اشکوں کی جھڑی لگی ہوئی ہو
بھیگا ہوا تیرے پاس آؤں
اک عمر کی داستان گریہ
دریا کے سوا کسے سناؤں
غزل
اس بحر میں ڈوب کیوں نہ جاؤں
منظور عارف