اروشی آسماں سے آ جائے
کوئی ارجن سا روپ دکھلائے
کوئی بس جائے جو تصور میں
موت بھی زندگی سے شرمائے
چاند بکھرا رہا ہے کرنوں کو
کون آتا ہے سر کو نہوڑائے
بادلوں کے سجیلے ڈولے پر
کوئی دلہن پیا کے گھر جائے
کوئی پھر دل میں چٹکیاں لے لے
کوئی پھر من کو آ کے بہلائے
غزل
اروشی آسماں سے آ جائے
دید راہی