عروج اوروں کو کچھ دن ہے اہرمن کی طرح
فروغ کس کو ہے رندوں کے بانکپن کی طرح
مرا خیال نہیں ہے تو اور کیا ہوگا
گزر گیا ترے ماتھے سے جو شکن کی طرح
یہ سر زمین گل و لالہ سو بھی جاتی ہے
لبادہ برف کا اوڑھے ہوئے کفن کی طرح
کبھی تو گزروں گا اس رہ گزار سے ہو کر
خود اپنی تاک میں بیٹھا ہوں راہزن کی طرح
خزاں کا خوف مجھے کھائے جا رہا ہے کمالؔ
چنار سرخ نہ ہوں آتش سخن کی طرح
غزل
عروج اوروں کو کچھ دن ہے اہرمن کی طرح
کمال احمد صدیقی