انس اپنے میں کہیں پایا نہ بیگانے میں تھا
کیا نشہ ہے سارا عالم ایک پیمانے میں تھا
آہ اتنی کاوشیں یہ شور و شر یہ اضطراب
ایک چٹکی خاک کی دو پر یہ پروانے میں تھا
آپ ہی اس نے انا الحق کہہ دیا الزام کیا
ہوش کس نے لے لیا تھا ہوش دیوانے میں تھا
اللہ اللہ خاک میں ملتے ہی یہ پائے ثمر
لو خدا کی شان پھل بھی پھول بھی دانے میں تھا
شیخ کو جو پارسا کہتا ہے اس کو کیا کہوں
میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا وہ مے خانے میں تھا
شاعرؔ نازک طبیعت ہوں مرا دل کٹ گیا
ساقیا لینا کہ شاید بال پیمانے میں تھا
غزل
انس اپنے میں کہیں پایا نہ بیگانے میں تھا
آغا شاعر قزلباش