انہوں نے کیا نہ کیا اور کیا نہیں کرتے
ہزار کچھ ہو مگر اک وفا نہیں کرتے
برا ہوں میں جو کسی کی برائیوں میں نہیں
بھلے ہو تم جو کسی کا بھلا نہیں کرتے
وہ آئیں گے مری تقریب مرگ میں توبہ
کبھی جو رسم عیادت ادا نہیں کرتے
جہاں گئے یہی دیکھا کہ لوگ مرتے ہیں
یہی سنا کہ وہ وعدہ وفا نہیں کرتے
کسی کے کم ہیں کسی کے بہت مگر زاہد
گناہ کرنے کو کیا پارسا نہیں کرتے
جو ان حسینوں پہ مرتے ہیں جیتے جی مضطرؔ
وہ انتظار پیام قضا نہیں کرتے

غزل
انہوں نے کیا نہ کیا اور کیا نہیں کرتے
مضطر خیرآبادی