انہیں لوگوں کی بدولت یہ حسیں اچھے ہیں
چاہنے والے ان اچھوں سے کہیں اچھے ہیں
کوچۂ یار سے یا رب نہ اٹھانا ہم کو
اس برے حال میں بھی ہم تو یہیں اچھے ہیں
نہ کوئی داغ نہ دھبا نہ حرارت نہ تپش
چاند سورج سے بھی یہ ماہ جبیں اچھے ہیں
کوئی اچھا نظر آ جائے تو اک بات بھی ہے
یوں تو پردے میں سبھی پردہ نشیں اچھے ہیں
تیرے گھر آئیں تو ایمان کو کس پر چھوڑیں
ہم تو کعبے ہی میں اے دشمن دیں اچھے ہیں
ہیں مزے حسن و محبت کے انہیں کو حاصل
آسماں والوں سے یہ اہل زمیں اچھے ہیں
ایک ہم ہیں کہ جہاں جائیں برے کہلائیں
ایک وہ وہ ہیں کہ جہاں جائیں وہیں اچھے ہیں
کوچۂ یار سے محشر میں بلاتا ہے خدا
کہہ دو مضطرؔ کہ نہ آئیں گے یہیں اچھے ہیں
غزل
انہیں لوگوں کی بدولت یہ حسیں اچھے ہیں
مضطر خیرآبادی