انہیں دیکھتے ہی فدا ہو گئے ہم
محبت میں یوں مبتلا ہو گئے ہم
مرے لب پہ آئی تمنا تو بولے
ہٹو چھوڑ جاؤ خفا ہو گئے ہم
زمانے سے چھپ کر ملے تھے کسی سے
زمانے نے دیکھا جدا ہو گئے ہم
کبھی تو نے سوچا کبھی تو نے سمجھا
ترے ہجر میں کیا سے کیا ہو گئے ہم
رہ عشق میں تھک گئے چلتے چلتے
تو راہی سے خود رہنما ہو گئے ہم
تبسم ہنسی بے رخی بے حجابی
تری ہر ادا پر فدا ہو گئے ہم
حزیںؔ کوئی اتنا بتا دے خدا را
جوانی میں کیوں پارسا ہو گئے ہم

غزل
انہیں دیکھتے ہی فدا ہو گئے ہم
ہنس راج سچدیو حزیںؔ