ان سے ملنا کسی بہانے سے
ورنہ مطلب شراب خانے سے
نیند آ جائے گی سنا تو سہی
حال دل کم نہیں فسانے سے
ضبط غم سے ٹپک پڑے آنسو
عشق چھپتا نہیں چھپانے سے
آتش عشق بھی غضب ہے کوئی
بھڑک اٹھتی ہے کچھ بجھانے سے
ظلم کیا کیا سہے مگر رونقؔ
تم نہ باز آئے دل لگانے سے
غزل
ان سے ملنا کسی بہانے سے
رونق ٹونکوی