ان سے کہیں ملے ہیں تو ہم یوں کبھی ملے
اک اجنبی سے جیسے کوئی اجنبی ملے
دیکھا تو لوح دل پہ ترے نام کے سوا
جلتے ہوئے نشان ستم اور بھی ملے
کچھ دور آؤ موت کے ہم راہ بھی چلیں
ممکن ہے راستے میں کہیں زندگی ملے
ہونٹوں کی مے نظر کے تقاضے بدن کی آنچ
اب کیا ضرور ہے کہ وہی رات بھی ملے
غزل
ان سے کہیں ملے ہیں تو ہم یوں کبھی ملے
خورشید احمد جامی