EN हिंदी
ان سے کہیں ملے ہیں تو ہم یوں کبھی ملے | شیح شیری
un se kahin mile hain to hum yun kabhi mile

غزل

ان سے کہیں ملے ہیں تو ہم یوں کبھی ملے

خورشید احمد جامی

;

ان سے کہیں ملے ہیں تو ہم یوں کبھی ملے
اک اجنبی سے جیسے کوئی اجنبی ملے

دیکھا تو لوح دل پہ ترے نام کے سوا
جلتے ہوئے نشان ستم اور بھی ملے

کچھ دور آؤ موت کے ہم راہ بھی چلیں
ممکن ہے راستے میں کہیں زندگی ملے

ہونٹوں کی مے نظر کے تقاضے بدن کی آنچ
اب کیا ضرور ہے کہ وہی رات بھی ملے