ان نگاہوں کو ہم آواز کیا ہے میں نے
تب کہیں گیت کا آغاز کیا ہے میں نے
ختم ہو تاکہ ستاروں کی اجارہ داری
خاک کو مائل پرواز کیا ہے میں نے
آپ کو اک نئی خفت سے بچانے کے لیے
چاندنی کو نظر انداز کیا ہے میں نے
آسمانوں کی طرف اور نہیں دیکھوں گا
اک نئے دور کا آغاز کیا ہے میں نے
روٹھے لوگوں کو منانے میں مزہ آتا ہے
جان کر آپ کو ناراض کیا ہے میں نے
تم مجھے چھوڑ کے اس طرح نہیں جا سکتے
اس تعلق پہ بہت ناز کیا ہے میں نے
وہ جو صدیوں سے یہاں بند پڑا تھا دیکھو
شاعری کا وہی در باز کیا ہے میں نے
سن کے مبہوت ہوئی جاتی ہے دنیا ساری
شعر لکھے ہیں کہ اعجاز کیا ہے میں نے
عشق میں نام کمانا کوئی آسان نہ تھا
سارے احباب کو ناراض کیا ہے میں نے
صرف لوگوں کو بتانے سے تسلی نہ ہوئی
چاند تاروں کو بھی ہم راز کیا ہے میں نے
اور بھی ہوں گے کئی چاہنے والے لیکن
آپ کے نام کو ممتاز کیا ہے میں نے
آسمانوں سے پرے کرتا ہے اب جا کے شکار
طائر دل کو وہ شہباز کیا ہے میں نے
شاعروں سے جو ترے بعد کبھی ہو نہ سکا
کام وہ حافظ شیراز کیا ہے میں نے
غزل
ان نگاہوں کو ہم آواز کیا ہے میں نے
فواد احمد