ان کو شرح غم سنائی جائے گی
آگ پانی میں لگائی جائے گی
کھنچ کے دیکھیں گے کسی سے ایک بار
یوں بھی قسمت آزمائی جائے گی
تیری نظروں میں ہے جو تاثیر جذب
اب مرے نالوں میں پائی جائے گی
میری صبح زندگی کی اک جھلک
ڈوبتے تاروں میں پائی جائے گی
آپ ہی کہئے کہ موج اضطراب
آپ سے کیوں کر چھپائی جائے گی
راز رکھ راز محبت اے شکیلؔ
یہ غزل محفل میں گائی جائے گی
غزل
ان کو شرح غم سنائی جائے گی
شکیل بدایونی