ان کی نگہ ناز کے ٹھکرائے ہوئے ہیں
ہم جرم محبت کی سزا پائے ہوئے ہیں
یہ سایہ نشینان گزر گاہ تمنا
کچھ عشق کے کچھ عقل کے بہکائے ہوئے ہیں
اب ان کو نئی صبح کے پیغام سنا دو
جو تیرگی وقت سے گھبرائے ہوئے ہیں
مے چھلکے گی مے ابلے گی مے برسے گی رندو
مے خانے میں خود شیخ حرم آئے ہوئے ہیں
توبہ نہیں ٹوٹے گی سبو آئے کہ خم آئے
مے کش تری آنکھوں کی قسم کھائے ہوئے ہیں
ان اشکوں کے قطروں کو بھی بے مایہ نہ سمجھو
مظلوموں کی آنکھوں میں جگہ پائے ہوئے ہیں
اب ان کے تغافل کا وفاؔ ذکر نہ چھیڑو
دیکھو تو وہ کس ناز سے شرمائے ہوئے ہیں
غزل
ان کی نگہ ناز کے ٹھکرائے ہوئے ہیں
وفا ملک پوری